Monday, August 2, 2010

کشمیر میں حالات بے قابو، کرفیو جاری

ہے لیکن وہاں انہیں مزاحمت کا سامنا ہے۔
معمول کی زندگی معطل ہوجانے کی وجہ سے وادی میں انسانی بحران کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
اس دوران وادی کے جنوبی قصبوں میں صرف پچھلے تین روز کے دوران مظاہرین کے خلاف فورسز کاروائیوں اور دوسری وارداتوں میں ایک خاتون سمیت کم از کم دس افراد مارے گئے ہیں۔ گیارہ جون سے اب تک پولیس کی فائرنگ میں چونتیس افراد مارے جاچکے ہیں۔
اتوار کو پلوامہ کے پام پورہ قصبہ میں مظاہرین پر فورسز کی فائرنگ سے افروزہ اختر نامی خاتون اور تین نوجوان ہلاک ہوگئے تو قصبہ کے پڑوس میں کِھری واہ علاقے کے لوگوں نے مشتعل ہوکرکِھری واہ میں واقع پولیس کے خصوصی آپریشن گروپ کے ایک کیمپ پر دھاوا بول دیا۔
فائل فوٹو
فورسز کی زیادتیوں کے خلاف عوام نے پر تشدد مظاہرے کیے ہیں
وہاں سے پولیس اہلکار ہتھیار سمیت بھاگ گئے اور بعد میں مظاہرین نے اس میں آگ لگا دی جس کے دوران کیمپ میں ذخیرہ کیا گیا بارود پھٹ گیا۔ بارودی دھماکہ سے کم از کم پانچ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
مقامی شہری عبدالرشید خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ملبے کے نیچے ابھی بھی دس سے زائد لاشیں ہیں۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ کیمپ کے ارد گرد ایک درجن مکانوں کی دیواروں میں شگاف پڑگئے ہیں۔سوموار کی صبح بھی یہاں لوگوں نے کرفیو توڑ کر سڑکوں پر مظاہرے شروع کئے۔
اس دوران سنیچر کو ضلع اننت ناگ کے بجبہاڑہ قصبہ میں مقامی پولیس افسر نے ایک مظاہرے میں شامل جس شہری کو اپنی جیپ کے نیچے کچل دیا تھا اس کی سوموار کی صبح موت ہوگئی۔ طارق احمد نامی اس شہری کی ہلاکت کے بعد ضلع کے کاڈی پورہ علاقہ میں لوگوں نے کرفیو کی خلاف ورزی کی اور سڑکوں پر دھرنا دیا۔ تاہم پولیس اور نیم فوجی دستوں نے ہوا میں فائرنگ اور اشک آور گیس کا استعمال کرکے انہیں منتشر کردیا۔
ضلع کے نئی بستی اور کھنہ بل علاقوں میں لوگوں نے صبح سویرے ہی کرفیو توڑ کر سرینگر جموں شاہراہ پر دھرنا دیا تھا۔ عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ لوگوں نے سڑک کے کناروں پر تاریخی سفیدوں کو کاٹ کر شاہرا کو سیل کردیا ہے۔ اس دوران فوج یا پولیس کی نقل و حرکت بھی مسدود ہو کررہ گئی ہے۔
اس دوران پولیس اور نیم فوجی دستے پوری وادی میں کرفیو کو سختی سے نافذ کرنے کے لیے سڑک کے کنارے مکانوں کو کھڑکیاں کھولنے کی اجازت بھی نہیں دے رہے ہیں اور فورسز اہلکاروں نے شاہراہوں کے ساتھ ساتھ اندرونی بستیوں میں بھی ناکہ بندی کردی ہے۔
واضح رہے کہ گیارہ جون سے کشمیر میں فرضی جھڑپوں میں ہلاکتوں کے خلاف جاری عوامی مزاحمت کے دوران فورسز کی فائرنگ اور اشک آور گیس کے گولوں سے اب تک اکتیس افراد مارے گئے ہیں جبکہ ایسے ہی مظاہروں میں جنوری سے اب تک پچاس شہری مارے جاچکے ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وادی میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور دھیرے دھیرے بے قابو ہورہے ہیں۔جنوبی کشمیر میں تعینات ایک سینئر پولیس افسر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ فی الوقت پولیس کو نیم فوجی دستوں کی سولہ بٹالین کا تعاون حاصل ہے، لیکن جس طرح حالات بگڑ رہے ہیں، خطے میں تینتالیس بٹالین کی ضرورت ہے۔
دریں اثنا بھارتی کابینہ کی کمیٹی برائے سلامتی امور کے ایک ہنگامی اجلاس میں وزیراعظم نے یہاں کے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کو لوگوں کے ساتھ رابطہ بڑھانے کی خاص ہدایات دی ہیں۔ اس کے فوراً بعد وزیراعلیٰ نے وزراء کی مختلف ٹیموں کو مختلف ضلعوں کی طرف روانہ کردیا۔
لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ وزرا کے یہ دورے حالات کو مزید کشیدہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ اتوار کو جب ضلع اننت ناگ میں کابینی وزرا پیر زارہ سعید، آغا روح اللہ اور سکینہ یتو ضلع کے ڈاگ بنگہ میں حالات کا جائزہ لے رہے تھے تو ہزاروں مظاہرین نے ان کا گھیراؤ کر لیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے اضافی فورسز طلب کرنا پڑی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ پچھلے تریپن روز سے کشمیر میں کرفیو، ہلاکتوں اور ہڑتالوں کی وجہ عام زندگی معطل ہے۔ وادی میں خوراک کی اشیا کا سٹاک بھی ختم ہورہا ہے اور لوگوں کو کھانے پینے کی چیزیں حاصل کرنے میں مشکالات کا سامنا ہے۔
ہسپتالوں میں ادویات اور دوسری ضروریات کی وجہ سے زبردست بحران کی صورتحال ہے۔ سینئر معالج ڈاکڑ سلیم خان کا کہنا ہے کہ، 'ہر روز یہاں کے ہسپتالوں میں گولیوں سے زخمی کم از کم ایک سو زخمیوں کا علاج ہورہا ہے۔ ہمارے پاس گاز اور بینڈیج اور آیوڈین ختم ہورہی ہے۔' اس کے علاوہ بازاروں سے کینسر اور دوسری خطرناک بیماریوں کے لئے مخصوص دوائیوں کا سٹاک بھی ختم ہورہا ہے۔