Saturday, August 7, 2010

بے گھر و آسرا، غم کے لیے وقت کہاں؟


کوٹ ادوموت کا خوف کس طرح تمام دنیاوی رشتوں، مال اسباب اور جائیداد پر حاوی ہوجاتا ہے اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں نے خود اپنی آنکھوں سے ایک انسانی بستی کو ڈوبتے اور اس کے مکینوں کو اپنی جان بچا کر بھاگتے دیکھا۔
یہ جنوبی پنجاب کا ضلع مظفر گڑھ ہے، شہر سے تقریباً پینتالییس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بڑا قصبہ کوٹ اددو ہے جہاں شہرمیں پانی داخل ہوچکا تھا اور اب پانی پاور پلانٹ کی جانب بڑھ رھا تھا جس کی حفاظت کی ذمہ داری فوج نے سنبھال لی۔
میں نے وہیں جانے کا قصد کیا لیکن ضروری نہیں انسانی ارادے ہمیشہ پورے ہوجائیں۔ ابھی کوٹ ادو پینتیس کلومیٹر دور تھا کہ ایک جم غفیر سڑک پر دکھائی دیا۔
یہ اتنا بڑا قافلہ تھا کہ اس نے ٹریفک بلاک کردی۔ دیہاتی لوگ اپنے مویشی ہانکتے، سر پرگٹھڑیاں اٹھائے ننگے پیر بدحال بچوں کے ہاتھ تھامے چلے جا رہے تھے، کوئی ٹریکٹر ٹرالی پر تھا کسی کے پاس بیل گاڑی تھی تو کوئی پیدل تھا لیکن سب کے چہروں پر پریشانی تھی۔
ایک امام مسجد محمد اشرف ملے ان کی تنخواہ دو ہزارماہوار تھی اور انہیں جوگاڑی ملی اس کا کرایہ عام دنوں میں تو دو ہزار لیکن آفت کےان گھنٹوں کےلیے چھ ہزار ہوچکا تھا۔ مولوی صاحب نے اپنی بکریاں بیچ کر یہ گاڑی کرایہ پرلی۔
لوگوں کو روکا تو معلوم ہوا کہ دریائے چناب سے نکلنے والی مظفرگڑھ کینال کا مزید ایک بند ٹوٹ جانے سے قصبہ محمود کوٹ کے کئی درجن دیہات ڈوب گئے ہیں۔
ایک نوجوان محمد افضل نے بتایا کہ دو تین روز سے سرکاری عملہ اس بند کو توڑنا چاہتا تھا لیکن مقامی لوگ مزاحمت کر رہے تھے۔ اس کے بقول رات تقریباً ایک بجے جب سب لوگ گھروں کو چلے گئے تو یہ بند ٹوٹ گیا۔
وہ جاگ رہا تھا اور چارپائی پر بیٹھا تھا جب پانی سرسراتا ہوا اس کے پاؤں سے ٹکرایا۔ محمد افضل نے کہا کہ باقی بستی والوں کی طرح وہ تھوڑا بہت سامان اٹھا کر بھاگ نکلاہے۔
اگر آپ نے فلموں میں سمندر کی طوفانی رات دیکھی ہو، یا اس کی اونچی لہروں کو دیکھا ہو، تو شاید آپ کو میدانی علاقوں کے سیلاب کا اندازہ نہ ہو پائے۔
و تین روز سے سرکاری عملہ اس بند کو توڑنا چاہتا تھا لیکن مقامی لوگ مزاحمت کر رہے تھے۔ رات تقریباً ایک بجے جب سب لوگ گھروں کو چلے گئے تو یہ بند ٹوٹ گیا
محمد افضل
مختلف علاقوں کی تباہی کا انداز مختلف ہوسکتا ہے لیکن میں نے محمود کوٹ کو ڈوبتے دیکھا جہاں پانی ایک ایک انچ کر کے چڑھ رہا تھا اور لوگ جتنا سامان بچاسکتے تھے اپنے سروں پر رکھ کر اونچی سڑک کی جانب جا رہے تھے۔
ایک سیم نالہ تھا جو اب کسی بڑی نہر کا منظر پیش کر رہا تھا۔ بستی شہیداں کےسامنے ایک ٹولی سڑک پر کھڑی ملی، لوگ پریشان تھے۔ ایک مکین نصیر اختر نے پھولی ہوئی سانس میں بتایا کہ یہاں دس منٹ پہلے ایک پل تھا جو اب پانی میں بہہ گیا ہے۔
میں نے دیکھا دونوجوان سر پر اناج کی چھوٹی بوریاں اٹھائے کئی فرلانگ دور ایک دوسرے پل کی جانب جا رہے تھے جو اب پانی کی زد میں تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے پانی اس بستی میں واقع ایک چھوٹے مزار کے اندر داخل ہوگیا۔ باقی گھروں کی تقریباً آدھی آدھی دیواریں ڈوب چکی تھیں۔
سیلاب
لوگ جو کچھ بچا سکے، اپنے ساتھ لیکر نکل پڑے
میں واپس کوٹ ادو روڈ پر پہنچا تو پولیس اور ریسکیو ون ون ٹو ٹو کے اہلکار ٹریفک جام ختم کرنے میں کامیاب ہو چکےتھے۔
خوفزدہ لوگ اب اپنی گائیں بھینس، بھیڑ بکریاں لیے تقریباً دوڑ رہے تھے۔
یہ پریشان لوگوں کی وہ افراتفری تھی جسے میں براہ راست دیکھ رہا تھا لیکن چشم تصور میں جنوبی پنجاب کے ایسے سینکڑوں ہزاروں قافلے تھے۔یہ واحد بند نہیں تھا جو ٹوٹا ہو بلکہ سینکڑوں چھوٹے بڑے بند دریائےسندھ اور دریائے چناب کے منہہ زور پانی کی زد میں آکر ٹوٹے ہیں اور اس طرح کے کئی ہزار قافلے بنا چکے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پندرہ لاکھ سے زائد افراد صرف جنوبی پنجاب میں بے گھر ہوئے جبکہ تقریباً اتنے ہی سندھ میں دربدر ہوئے ہیں۔خیبر پختونخواہ اور کشمیر کی نقل مکانی میں لوگ ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
جب اتنے وسیع پیمانے پرتباہی ہورہی ہو تو انسانوں کی زندگیوں اور رویوں میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اچھی اور بری دونوں طرح کی تبدیلیاں۔ میری ملاقات ایک نوجوان پک اپ ویگن ڈارئیورخورشید احمد سے ہوئی جو محض ڈیزل کا خرچ لیکر مسلسل اپنے محلے داروں کو مال اسباب سمیت محفوظ مقام پر منتقل کررہا تھا۔ خورشید کی گاڑی بوسیدہ لیکن عزم ترو تازہ تھا۔
ایک امام مسجد محمد اشرف ملے ان کی تنخواہ دو ہزارماہوار تھی اور انہیں جوگاڑی ملی اس کا کرایہ عام دنوں میں تو دو ہزار لیکن آفت کےان گھنٹوں کےلیے چھ ہزار ہوچکا تھا۔ مولوی صاحب نے اپنی بکریاں بیچ کر یہ گاڑی کرایہ پرلی۔
امام مسجد نے بتایا کہ علاقے میں روٹی تیس روپے اور سالن ڈیڑھ سو روپے کی پلیٹ ہوچکا ہے جو غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہے۔
نقل و حمل کے ذرائع کے بعد سب سے بڑا مسئلہ بھوک ہے جس سے نبرد آزما ہونا اس پر آشوب دور میں مشکل تھا۔ میں نے ایک ٹیلے پر بیٹھے بچوں کو کچی کھجوریں چباتے دیکھا۔
ایک عورت عذرا کا چہرہ نہ بھولنے والا ہے، اس نے اپنی بے تاثر آنکھوں سے دیکھا، اپنے تین بچوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ بس یہ بچا ہے باقی سب کچھ وہیں رہ گیا۔ میں نے پوچھا باقی کیا؟ کہنے لگی گھر بار مال مویشی اور میرا شوہر۔۔۔۔۔
ایک عورت عذرا کا چہرہ نہ بھولنے والا ہے، اس نے اپنی بے تاثر آنکھوں سے دیکھا، اپنے تین بچوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ بس یہ بچا ہے باقی سب کچھ وہیں رہ گیا۔ میں نے پوچھا باقی کیا؟ کہنے لگی گھر بار مال مویشی اور میرا شوہر۔۔۔۔۔
اس نے جتنی آسانی سے میرا شوہر کہہ دیا وہ میری سمجھ میں نہ آیا، معلوم ہوا کہ وہ چند گھنٹے پہلے ہی بیوہ ہوئی ہے اس کا شوہر گائے بھینس بچانےکے لیے پانی میں اترا لیکن پانی اسے بہا کر لے گیا۔
جنوبی پنجاب میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے نقل مکانی کرنے والے لوگ فاقہ مستی اور بے سرو سامانی کے باوجود خود کو کم از کم اس لحاظ سے خوش قسمت تصور کرتے ہیں کہ وہ محفوظ مقام پر منتقل ہوگئے۔ متعدد متاثرہ لوگوں نے بتایا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سیلاب کے پانی میں پھنس چکی ہے۔
خود میرا کوٹ ادو تک کا سفر اس لیے ادھورا رہ گیا کہ محمود کوٹ سے چند کلومیٹرکے بعد ہی سیلاب کے پانی نے کوٹ ادو جانے والی سڑک کو ڈوبو دیا تھا۔