Tuesday, August 3, 2010

پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب، لاکھوں افراد متاثر، بارشوں کا سلسلہ دوبارہ شروع

فائل فوٹو، خیبر پختونخوا میں سیلاب
پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب میں سینکڑوں افراد ہلاک، لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ متاثرہ علاقوں میں بیماریاں پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور ملک بھر میں مون سون بارشوں کا دوسرا دور شروع ہو گیا ہے۔
بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس نے کہا ہے کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے تقریباً پچیس لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
تاہم اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے متاثر ہونے والوں کی تعداد تیس لاکھ بتائی ہے۔ یونیسیف کے اہلکار عبدلسمیع ملک کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان اور امدادی تنظیموں کا آج (منگل) اجلاس ہو گا جس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ فوری ایمرجنسی اپیل کی جائے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے چار اضلاع، نوشہرہ، چارسدہ، مردان اور پشاور، میں متاثر ہونے والوں کی تعداد نو لاکھ اسی ہزار ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے چار اضلاع، نوشہرہ، چارسدہ، مردان اور پشاور، میں متاثر ہونے والوں کی تعداد نو لاکھ اسی ہزار ہے
انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ سوسائٹی نے سولہ ملین ڈالر کی اپیل کی ہے۔
متاثرہ شمال مغربی علاقوں میں موسلادھار بارش اور سیلاب کی وجہ سے سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے بعد اب ہیضے جیسی بیماریوں کا شدید خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ سیلاب میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں اور اندازہ کیا جا رہا ہے کہ لاکھوں افراد شدت سے امداد کے منتظر ہیں۔
دریں اثنا پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق دریائے سندھ میں اس صدی کا سب سے بڑا سیلابی ریلا اس وقت گزر رہا ہے۔
سندھ میں حکام نے سیلابی ریلے کے پیش نظر کچے کے علاقے سے دس لاکھ لوگوں کے انخلا کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے۔


سیلاب سے بےگھر ہونے والے لاکھوں لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء اور صاف پانی کی قلت کا سامنا ہے۔
خیبر پختونخواہ کے وزیر اطلاعات میاں افتخار کے مطابق سیلاب اور زمین کھسکنے کے واقعات سے پندرہ لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستان کی فوج امداد اور بچاؤ کے کام میں مدد کر رہی ہے جبکہ امریکہ، اقوام متحدہ اور چین نے ہنگامی امداد کا اعلان کیا ہے۔
بی بی سی کی نامہ نگار اورلا گیورین نے فوج کے ایک ہیلی کاپٹر میں متاثرہ علاقوں کا جائزہ لینے کے بعد فوج کے حوالے سے بتایا ہے کہ بچاؤ اور امداد کا ابتدائی آپریشن دس دن تک جاری رہ سکتا ہے لیکن تعمیر نو کے کام کے لیے چھ مہینے درکار ہوں گے۔ ایک علاقے میں انتیس پل تباہ ہوگئے ہیں اور کچھ آبادیاں جزیروں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔
سیو دی چلڈرن نامی امدادی ادارے کی ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وادی سوات میں سنہ دو ہزار پانچ کے زلزلے سے بھی زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔
کچھ متاثرین کا الزام ہے کہ امدادی کارروائیاں سست اور ناکافی ہیں۔
متاثر ہونے والے علاقوں سے لوگ سب سے زیادہ پینے کے پانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ فی الحال ہمیں کھانا نہیں چاہیے، ہمیں پینے کا پانی چاہیے، ان علاقوں میں کوئوں میں گارا بھر گیا ہے اور یہ اب قابل استعمال نہیں ہیں۔کھانے کے سامان کی قلت تو ہے ہی لیکن بچوں میں اب اسہال شروع ہوگیا ہے اور ہیضہ، اصال خطرہ اب یہ ہے
ورلڈ ویژن کے علاقائی پروگرام مینجر شہریار خان بنگش
چند علاقوں میں پانی اترنا شروع ہوگیا ہے لیکن محکمۂ موسمیات نے مزید بارش کی پیشین گوئی کی ہے۔



خیبر پختوں خواہ آفت زدہ

پشاور اور مضافاتی علاقوں میں اب تک سات سو سڑسٹھ ہلاکتوں کی تصدیق ہوگئی ہے۔ تاہم غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق مرنے والوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ مالاکنڈ اور کوہستان میں اقتصادی ڈھانچہ اور ذرائع مواصلات بلکل تباہ چکے ہیں۔
اسلام آباد میں نامہ نگار علیم مقبول کے مطابق سرکاری عہدیداران کو اس بات کی فکر ہے کہ جیسے جیسے متاثرہ علاقوں تک رسائی بہتر ہوگی، تباہی کی اصل تصویر سامنے آئے گی جو ان کے خیال میں موجودہ تخمینوں سے کہیں زیادہ خراب ہوسکتی ہے۔
خیبر پختونخواہ کے وزیر اطلاعات میاں افتخار کے مطابق سیلاب اور زمین کھسکنے کے واقعات سے تقریباً پندرہ لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
افتخار حسین کے مطابق امدادی ٹیمیں ان ستائیس ہزار لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں جو سیلاب کے پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان میں پندرہ سو سیاح بھی شامل ہیں جو سوات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق سوات کے بعض علاقوں میں ہیضے کے واقعات کی تصدیق ہوئی ہے۔

امدادی سرگرمیاں

پشاور میں امدادی تنظیم ورلڈ ویژن کے علاقائی پروگرام مینجر شہریار خان بنگش کے مطابق سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں لوگ سب سے زیادہ پینے کے پانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ فی الحال ہمیں کھانا نہیں چاہیے، ہمیں پینے کا پانی چاہیے، ان علاقوں میں کنوؤں میں مٹی اورگارا بھر گیا ہے اور یہ اب قابل استعمال نہیں ہیں۔‘
’کھانے کے سامان کی قلت تو ہے ہی لیکن بچوں میں اب اسہال اور ہضیہ شروع ہوگیا ہے، اور اب اصل خطرہ یہ ہے۔‘
امدادی ٹیمیں ان ستائیس ہزار لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں جو سیلاب کے پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان میں پندرہ سو سیاح بھی شامل ہیں جو سوات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق سوات کے بعض علاقوں میں ہیضے کے واقعات کی تصدیق ہوئی ہے۔
میاں افتخار حسین، وزیر اطلاعات
صوبہ سندھ میں نو لاکھ کیوسک پانی کی آمد کے خدشے کے پیش نظر صوبائی حکومت نے پانچ اضلاع سے ڈیڑھ لاکھ لوگوں کے انخلا کا فیصلہ کیا ہے۔ امکانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کئی شعبوں میں انتظامی ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔
بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں صوبہ بلوچستان میں بھی گزشتہ چند دنوں کے دوران ساٹھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں اور درجنوں تاحال لاپتہ ہیں۔ اس کے علاوہ بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کھلے آسمان تلے پڑے ہیں