پاکستان کے شہر کراچی میں حکمران اتحادی جماعت کے صوبائی رکنِ اسمبلی رضا حیدر کی ہلاکت کے بعد شہر میں فائرنگ کے مختلف واقعات میں سینتیس افراد ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں۔
پیر کی شام حکمران اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے رکنِ صوبائی اسمبلی رضا حیدر کو محافظ سمیت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے خلاف ایم کیو ایم نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔کراچی سے ہمارے نامہ نگار ریاض سہیل نے بتایا کہ رضا حیدر کی ہلاکت کے بعد شہر کے بعض علاقوں میں فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور ان واقعات میں منگل کی صبح تک سینتیس افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
کراچی کے پولیس سرجن حامد پرہیاڑ نے بتایا ہے کہ منگل کی صبح دس بجے تک جناح ہسپتال میں بارہ، سول ہسپتال میں گیارہ، عباسی شہید ہسپتال میں نو اور اورنگی قطر ہپستال میں تین لاشیں لائی گئی ہیں۔
ہسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں ٹرانسپورٹرز، رکشہ ڈرائیورز اور مزدور شامل ہیں۔
متحدہ کے رکن اسمبلی رضا حیدر کی نماز جنازہ آج ادا کی جائے گی ، وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ نماز کے موقعے پر خودکش بم حملے کا خدشہ موجود ہے۔
پیر کو وفاقی وزیرِ داخلہ رحمان ملک نے سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایم کیو ایم کے رکنِ صوبائی اسمبلی حیدر رضا کو کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان دھمکیوں کی اطلاع سندھ حکومت اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو دے دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے رہنما کو ہلاک کرنے کا مقصد کراچی میں فساد کی نئی لہر پیدا کرنا ہے اور کراچی کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
یوم سوگ، فائرنگ اور آتش زنی
جامعہ کراچی اور انٹر بورڈ نے اپنے امتحانات ملتوی کردیے ہیں۔
دریں اثنا ناظم آباد، ملیر، گلستان جوہر میں فائرنگ کی بھی اطلاعات ہیں ڈاک خانہ کے علاقے میں ایک نیوز چینل کی سٹاف وین کو نذر آتش کیا گیا ہے۔
سید آباد، لانڈھی، شاہ فیصل کالونی، لیاقت آباد، بلدیہ، گلستان جوہر سمیت مخلتف علاقوں میں تیس کے قریب ٹرک، بیس، منی بیس اور سوزوکی پک اپ کو نذر آتش کیا گیا ہے۔
ان علاقوں میں چھتیس کے قریب ہوٹلوں اور پتھاروں کو نذر آتش کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے پیر کو ایم کیو ایم کے رکنِ صوبائی اسمبلی کی ہلاکت کے بعد شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ اور آتش زنی کے واقعات شروع ہو گئے جس کے بعد شہر میں افراتفری پھیل گئی اور دکانیں اور کاروبار بند ہوگیا۔
کشیدگی کے بعد لوگوں نے گھروں کا رخ کیا جس کی وجہ سے ایم اے جناح، شاہراہ فیصل سمیت تمام بڑی سڑکوں پر ٹریفک جام ہوگیا۔ ابوالحسن اصفہانی روڈ اور حب ریور روڈ سمیت مختلف علاقوں میں نصف درجن کے قریب منی بسوں اور ٹرکوں کو مشتعل افراد نے نذر آتش کردیا ہے۔
صوبائی حکومت نے منگل کو تمام تعلیمی ادارے بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ جامعہ کراچی اور انٹر بورڈ نے اپنے امتحانات ملتوی کردیے ہیں۔
اس کے علاوہ کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں بھی دکانوں اور پتھاروں کو آگ لگا دی گئی جبکہ کچھ علاقوں میں قالین کی دکانوں اور لانڈھی میں ایک پیٹرول پمپ کو نذر آتش کیا گیا۔
حیدرآباد، کوٹری، میرپورخاص اور سکھر میں بھی ہوائی فائرنگ کی گئی ہے اور شہر بند ہوگئے ہیں۔
رکن صوبائی اسمبلی کا قتل
رضا حیدر متحدہ قومی مومنٹ سے گزشتہ پچیس سال سے وابستہ تھے۔ رضا حیدر پندرہ اکتوبر انیس سو انسٹھ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بیوہ سمیت ایک بیٹی اور ایک بیٹے کو سوگوار چھوڑا ہے۔
کچھ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے جو ایک موٹر سائیکل اور سفید رنگ کی کرولا کار میں سوار تھے فائرنگ سے پہلے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ پولیس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ واقعے میں کالعدم لشکر جھنگوی ملوث ہے۔
کچھ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے جو ایک موٹر سائیکل اور سفید رنگ کی کرولا کار میں سوار تھے فائرنگ سے پہلے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ پولیس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ واقعے میں کالعدم لشکر جھنگوی ملوث ہے۔
رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اگر حکومت سانحہ نشتر پارک، سانحہ عاشورہ، چہلم اور داتا دربار میں ملوث دہشت گروں کو گرفتار کر لیتی اور ان کے پشت پناہی کرنے والے عوامل کو سامنے لے آتی تو اس طرح کے واقعات پیش نہیں آتے۔
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے رضا حیدر ہلاکت کے خلاف تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ متحدہ قومی مومنٹ کے سندھ اسمبلی میں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر فیصل سبزواری کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند ہفتے قبل بھی رضا حیدر دھمکیاں دی گئی تھیں۔
’چوبیس جولائی کو عوامی نیشنل پارٹی سندھ کےصدر شاہی سید کی پریس کانفرنس میں جو زبان استعمال کی گئی اس کے بعد سے کراچی کی صورتحال خراب ہوئی ہے۔‘
فیصل سبزواری کے مطابق گزشتہ روز بھی ایک کارکن جمیل خانزادہ کو ہلاک کیا گیا اور آج رضا حیدر پر حملہ کیا گیا۔ یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
چوبیس جولائی کو اے این پی سندھ کی صدر شاہی سید کی پریس کانفرنس میں جو زبان استعمال کی گئی اس کے بعد سے کراچی کی صورتحال خراب ہوئی ہے۔
فیصل سبزواری
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر شاہی سید نے ایم کیو ایم کے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دکھ اور تکلیف میں اگر متحدہ نے کوئی بات کی بھی ہے تو وہ کوئی جواب نہیں دیں گے۔
اپنی پریس کانفرنس کے بارے میں شاہی سید کا کہنا تھا کہ پہلے ڈاکٹر فاروق ستار نے پریس کانفرنس کی تھی جس کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس کی۔
’ہم لوگوں کو پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہیں اور متحدہ کو بھی کہتے ہیں کہ وہ ایسی کوئی بات نہ کرے جس سے شہر میں مذید بربادی ہو۔ ہم تحقیقات میں مکمل طور پر تعاون کے لیے تیار