Thursday, August 12, 2010

متاثرین امداد کے منتظر، نئے ریلے کی وارننگ


پاکستان میں گزشتہ اسّی برس کے دوران آنے والے سب سے تباہ کن سیلاب سے متاثرہ افراد میں امداد کی فراہمی میں سست روی کے باعث بےچینی اور اشتعال پھیل رہا ہے جبکہ محکمۂ موسمیات کے فلڈ وارننگ سنٹر کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ میں آنے والے دوسرے بڑے سیلابی ریلے سے صوبے کے آٹھ اضلاع کے مزید متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔
ادھر اقوامِ متحدہ نے پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے متاثر افراد کی امداد کے لیے پینتالیس کروڑ نوے لاکھ ڈالر کی عالمی اپیل جاری کر دی ہے۔
نیویارک میں بدھ کو اپیل کا اعلان کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے امدادی اداروں کے رابطہ کار دفتر ’اوچا‘ کے سربراہ جان ہومز نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کی بدترین بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں چودہ ملین افراد متاثر ہوئے ہیں اور یہ حالیہ برسوں میں کسی بھی ملک کو درپیش بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے۔

جب آپ ایک ایسی جگہ راشن کے پانچ سو تھیلے لے کر جائیں گے جہاں پانچ ہزار لوگ امداد کے منتظر ہوں تو افراتفری کا سماں تو ہوگا۔ لوگ آپ پر جھپٹتے ہیں کیونکہ ان کی صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ ان کے بچے اور بزرگ مائیں بھوکی ہیں اور ان کی بے صبری جائز ہے، میں انہیں قصور وار نہیں ٹھہراتا۔
محسن لغاری
انہوں نے مزید کہا کہ اس امداد سے فوری ضرورت کی اشیاء کی فراہمی کو نوے روز تک یقینی بنایا جائے گا جن میں کھانا، پینے کا صاف پانی، خیمے اور ادوایات شامل ہوں گی۔ جان ہومز کا کہنا تھا کہ جیسے مزید معلومات ملیں گی ہنگامی امداد کے اس منصوبے پر تیس روز کے بعد نظر ثانی کی جائے گی۔
پاکستان میں سیلاب کے متاثرین کے لیے اب تک تقریباً نو کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کے قریب غیر ملکی امداد ملی ہے۔ نو اگست تک ملنے والی اس غیر ملکی امداد میں ایک کروڑ ڈالر کا قرضہ بھی شامل ہے۔

متاثرین کی تکالیف

دوسری جانب سیلاب متاثرین میں امداد کی فراہمی کا عمل سست روی سے جاری ہے اور یہ سست روی متاثرین میں اشتعال پیدا کرنے کا سبب بھی بن رہی ہے۔
سیلاب سے متاثرہ جنوبی پنجاب کے سیاستدان اور اسمبلی کے رکن محسن لغاری نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ افراد اب بھی کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ اگر بارش ہوتی ہے تو وہ ان کے لیے تکلیف کا باعث ہے اور اگر سورج چمکے تو وہ بھی‘۔
لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بھی متاثرہ علاقے سے نکل رہے ہیں
انہوں نے کہا کہ ’ ہر طرف پانی ہی پانی ہونے کی وجہ سے نمی کا تناسب اتنا بڑھ گیا ہے کہ سانس لینا دشوار ہے۔ فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، مویشی بہہ گئے ہیں، سڑکوں سمیت تمام انفراسٹرکچر ختم ہوگیا ہے‘۔
محسن لغاری نے بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور حکومت کی جانب سے دی جانے والی امداد کی آمد بہت آہستہ ہے۔ ’ہم ایک غریب ملک ہیں اور ہمارے وسائل نہایت محدود ہیں، ہم اس قسم کی آفت سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے‘۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ امداد فراہم کرنے والوں کو انتہائی بےصبر متاثرین کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ’جب آپ ایک ایسی جگہ راشن کے پانچ سو تھیلے لے کر جائیں گے جہاں پانچ ہزار لوگ امداد کے منتظر ہوں تو افراتفری کا سماں تو ہوگا۔ لوگ آپ پر جھپٹتے ہیں کیونکہ ان کی صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ ان کے بچے اور بزرگ مائیں بھوکی ہیں اور ان کی بے صبری جائز ہے، میں انہیں قصور وار نہیں ٹھہراتا‘۔

نئے سیلابی ریلے کی وراننگ

پاکستان کے محکمۂ موسمیات نے دریائے سندھ میں سیلاب کی تازہ صورتحال جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مون سون کی بارشوں کے دوسرے سلسلے کے نتیجے میں چھتیس گھنٹے پہلے دریائے سندھ اور دریائے کابل پر بننے والا بڑا سیلابی ریلا اب جنوبی پنجاب سےگزر رہا ہے اور آئندہ چند دن میں یہ ریلا گدو اور سکھر میں موجود پہلے ریلے سے جا ملے گا جس کے نتیجے میں صوبہ سندھ میں مزید تباہی کا اندیشہ ہے۔
مون سون کی بارشوں کے دوسرے سلسلے کے نتیجے میں چھتیس گھنٹے پہلے دریائے سندھ اور دریائے کابل پر بننے والا بڑا سیلابی ریلا اب جنوبی پنجاب سےگزر رہا ہے اور آئندہ چند دن میں یہ ریلا گدو اور سکھر میں موجود پہلے ریلے سے جا ملے گا جس کے نتیجے میں صوبہ سندھ میں مزید تباہی کا اندیشہ ہے۔
محکمۂ موسمیات
پاکستان کے چیف میٹرولوجسٹ حضرت میر نے نامہ نگار علی سلمان کو بتایا کہ اس ریلے سے صوبہ سندھ کے آٹھ اضلاع کے مزید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت اس ریلے سے دریائے سندھ اور دریائے چناب اور ان سے نکلنے والی نہروں کے اردگرد کے مزید علاقے زیر آب آ رہے ہیں جن میں مـظفر گڑھ ،ڈیرہ غازی خان،راجن پور اور رحیم یار خان کے اضلاع شامل ہیں۔ ان علاقوں میں جہاں پہلے سے موجود سیلابی پانی کی سطح میں اضافہ ہوا ہے وہیں مزید بستیاں بھی زیر آب آئی ہیں۔
محکمہ موسمیات کے ایک اہلکار کے مطابق سیلابی ریلے کے چشمہ اور تونسہ سے گذرنے کے بعد پنجند کےمقام پر جب چناب،راوی، ستلج اور جہلم کا پانی بھی اس میں شامل ہوگا تو یہ دس لاکھ کیوسک کا خطرناک ریلا بن جائے گا۔
خیال رہے کہ اس وقت پہلا سیلابی ریلا بھی گدو اور سکھر کے مقام پر موجود ہے اور اس کی مقدار سوا گیارہ لاکھ کیوسک ہے۔ محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ پہلے ریلے کے ان بیراجوں سے اخراج سے پہلے ہی دوسرا سیلابی ریلا بھی اس میں آ ملے گا اور جو سیلاب دو روز میں یہاں سے گزر جانا تھا وہ اب پانچ روز میں گذرے گا۔
سیلابی ریلے کے چشمہ اور تونسہ سے گذرنے کے بعد پنجند کےمقام پر جب چناب،راوی، ستلج اور جہلم کا پانی بھی اس میں شامل ہوگا تو یہ دس لاکھ کیوسک کا خطرناک ریلا بن جائے گا۔
محکمۂ موسمیات کے مطابق دوسرا ریلا گدو کے مقام پر خیر پور،جیکب آباد،گھوٹکی،اور سکھر کے اضلاع کو مزید متاثر کرسکتا ہے جبکہ سکھر بیراج پر یہ سکھر شہر کے علاوہ ضلع لاڑکانہ،نواب شاہ،حیدرآباد اور نوشہرہ فیروز کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اس سوال پر کہ پہلے ریلے سے کمزور ہوجانے والے بند اور پشتے کیا دوسرے ریلے کا زور برداشت کرپائیں گے، چیف میٹرولوجسٹ حضرت میر نے کہا کہ ’یقیناً تباہی زیادہ ہوگی، جو پانی کھڑا ہے اس کی سطح بھی بلند ہوگی مزید علاقے بھی زیر آب آئیں گے اور جس تنصیب،عمارت یا گھر میں صرف دویا تین روز تک سلامت رہنے کی صلاحیت تھی وہ پانچ روز کے سیلاب کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے‘۔

پاکستان کو امداد

وزیراعظم سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ ایک کروڑ ڈالر مالیت کے کھانے کے ساڑھے چار لاکھ پیکٹ سیلاب متاثرین میں تقسیم کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ اقوام متحدہ اور برطانیہ کی جانب سے ایک ایک کروڑ ڈالر، آسٹریلیا نے نو اعشاریہ صفر آٹھ، کویت نے پچاس لاکھ ڈالر، جب کہ یورپی یونین نے بھی ایک کروڑ ڈالر مالیت کی امداد دی ہے لیکن اس امداد کی نوعیت کا تعین کیا جا رہا ہے۔
برطانیہ کی بین الاقوامی ترقی کے ادارے ڈی ایف آئی ڈی نے صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائی علاقوں میں پلوں کی تعمیر کے لیے ایک کروڑ ڈالر کی امداد دی ہے۔ اس کے علاوہ چین، ناروے، جنوبی کوریا، ایران، قطر اور چین وغیرہ نے مخلتف مالیت کی امدادی اشیا فراہم کی ہیں۔ اسلامی ترقیاتی بینک نے دس لاکھ ڈالر کی امداد اور ایک کروڑ ڈالر کا قرضہ فراہم کیا ہے۔
چوراسی اعشاریہ آٹھ ایک ملین ڈالر کی امداد میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کا حصہ بائیس اعشاریہ پانچ نو اور مخلتف ممالک سے امدادی سامان اور رقوم کی مالیت باسٹھ اعشاریہ بائیس ملین ڈالر ہے۔
امریکہ ایک کروڑ ڈالر مالیت کے کھانے کے ساڑھے چار لاکھ پیکٹ سیلاب متاثرین میں تقسیم کر رہا ہے۔
دوسری جانب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان اعظم طارق نے برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے بات کرتے ہوئے حکومت پاکستان اور خیبر پختونخوا سے درخواست کی کہ غیر ملکی امداد قبول نہ کریں۔ ان کے مطابق ’یہ امداد متاثرین کے لیے حاصل نہیں کی جا رہی بلکہ اپنی دولت میں اضافے کے لیے لی جا رہی ہے‘۔

سات سو امریکی فوجی امدادی سرگرمیوں میں مصروف

پاکستان میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے کہا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے کے لیے پاکستان نے سات سو امریکی میرینز کو ویزے جاری کیے ہیں۔
پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ یہ امریکی فوجی شنوک ہیلی کاپٹروں کے ذریعے متاثرہ علاقوں سے لوگوں کو نکال رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ امریکی سیلاب متاثرین کی امداد جاری رکھے گا۔

سیلاب اور متاثرین کی صورتحال

سندھ

سندھ میں حکومت نے سیلاب سے متاثرہ پندرہ اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا ہے
پاکستان میں اس وقت سیلاب کا بڑا ریلا دریائے سندھ میں موجود ہے جو حکام کے مطابق اب کوٹری بیراج کی جانب بڑھ رہا ہے۔
حیدرآباد سے نامہ نگار علی حسن کا کہنا ہے کہ کوٹری میں دریائے سندھ پر واقع آخری بیراج سے بھی ابتدائی طور پر بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب انتہائی انچے درجے کا سیلابی ریلا گزرنے کی اطلاعات تھیں تاہم اب حکام کا کہنا ہے کہ یہ ریلا سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب تک ہی کوٹری پہنچے گا۔
اس سیلابی ریلے کی وجہ سے ضلع حیدر آباد اور ضلع ٹھٹہ کے نشیبی اور مضافاتی علاقوں میں سیلاب کا خطرہ ہے۔ سندھ میں سیلابی ریلے کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ خیرپور، نوشہرو فیروز، حیدرآباد اور دادو اضلاع کے حفاظتی بندوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
دریں اثنا صوبہ سندھ میں حکومت نے سیلاب سے متاثرہ پندرہ اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا ہے جن میں گھوٹکی، خیرپور، سکھر، خیرپور، نوشہرو فیروز، بینظیر آباد، مٹیاری، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، ٹھٹہ، کشمور، جیکب آباد، شکارپور، لاڑکانہ، دادو اور جامشورو شامل ہیں۔ سندھ کے بائیس میں سے یہ اضلاع دریائے سندھ کے دو اطراف میں آباد ہیں۔
متاثرین کی ایک بڑی تعداد سکھر بھی پہنچی ہے
سندھ میں سیلاب سے اب تک سب سے زیادہ کشمور اور جیکب آباد متاثرہوئے ہیں۔ جیکب آباد کی تحصیل ٹھل کی پوری آبادی خالی ہو گئی ہے اور متاثرین جیکب آباد بلوچستان ہائی وے پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ متاثرین کی ایک بڑی تعداد سکھر بھی پہنچی ہے۔ سکھر کے ضلعی ریونیو افسر سید سمیر نے بتایا کہ شہر میں ہزاروں متاثرین کی آمد کے بعد چالیس سکولوں اور ایک کھلے میدان میں امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سکھر شہر اور دریا کے درمیان حفاظتی بند سے رساؤ جاری ہے جس کو فوج کی مدد سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
نامہ نگار کے مطابق کچے کے علاقے سے لوگوں کا انخلا ممکن نہیں ہو سکا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد وہاں موجود ہے۔ منگل کو صوبائی وزرا نے حکام سے کہا تھا کہ وہ کچے سے لوگوں کے جلد از جلد انخلا کو یقینی بنائیں ورنہ بہت تاخیر ہو جائے گی۔
یقیناً تباہی زیادہ ہوگی، جو پانی کھڑا ہے اس کی سطح بھی بلند ہوگی مزید علاقے بھی زیر آب آئیں گے اور جس تنصیب،عمارت یا گھر میں صرف دویا تین روز تک سلامت رہنے کی صلاحیت تھی وہ پانچ روز کے سیلاب کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے
حضرت میر، چیف میٹرولوجسٹ
منگل کو ڈی سی او سکھر انعام اللہ دھاریجو نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’نقصان کا صحیح اندازہ اسی وقت ہوگا جب سیلابی ریلا یہاں سے گزر جائے گا لیکن میں محدود اندازے سے بتا سکتا ہوں کہ کچے کا علاقہ مکمل ڈوب گیا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب سے سکھر میں آٹھ سے دس دیہات کی پینتیس سے چالیس ہزار کی آبادی براہِ راست متاثر ہوئی ہے۔ ڈی سی او نے بتایا کہ دریا کے دائیں کنارے پر بند ٹوٹنے سے غوث پور، کندھ کوٹ، کشمور اور شکار پور سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے اور ایک ہی رات میں چالیس ہزار افراد نے ضلع سکھر کے مختلف مقامات پر پناہ لی ہے۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے جیکب آباد، کشمور، شکارپور، قمبر، شہداد کوٹ کے علاقوں کو ریڈ الرٹ علاقے قرار دیا گیا ہے۔اس سے پہلے حکام کے مطابق صوبہ سندھ میں گڈو بیراج سے بحیرۂ عرب تک بیس لاکھ تک کی آبادی کے سیلاب سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

پنجاب

مظفرگڑھ کے اردگرد کی بستیوں کو دوسرا ریلا زیر آب کرگیا ہے
صوبہ پنجاب کے فلڈ ریلیف کے ڈائریکٹر جنرل رضوان بیگ کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب کا شہر مظفر گڑھ خطرے کی زد میں ہے کیونکہ تونسہ اور چشمہ کے مقامات پر پانی کی سطح مسلسل بڑھی ہے۔
ان کے بقول دریائے سندھ سے پانی کا جو بڑا ریلا منگل اور بدھ کی درمیانی شب مظفر گڑھ سے گزرا ہے اس سے مظفر گڑھ محفوظ رہا ہے تاہم اردگرد کی بستیوں کو یہ پانی زیر آب کرگیا ہے۔
مظفر گڑھ شہر کو پہلے ہی سیلاب کے خطرے کے پیش نظر خالی کرا لیا گیا تھا اور ستر فیصد آبادی شہر چھوڑ چکی ہے۔
مظفرگڑھ سے رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے ایک نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ تین لاکھ افراد شہر سے نقل مکانی کرچکے ہیں جس کے باعث شہر ویران پڑا ہے۔
مظفر گڑھ اور ملتان کے درمیان سڑک بھی بند کردی گئی ہے جس سے لوگوں کو نقل مکانی کرنے میں شدید مشکل کا سامنا ہے کیونکہ پہلے ہی ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے درمیان سڑک دریا برد ہو چکی ہے اور ابھی تک بحال نہیں ہو سکی۔
تحسین ملک، صحافی
مقامی صحافی تحسین ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ مظفر گڑھ اور ملتان کے درمیان سڑک بھی بند کردی گئی ہے جس سے لوگوں کو نقل مکانی کرنے میں شدید مشکل کا سامنا ہے کیونکہ پہلے ہی ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے درمیان سڑک دریا برد ہو چکی ہے اور ابھی تک بحال نہیں ہو سکی۔
مقامی صحافی نے یہ بھی بتایا کہ دریائے چناب میں اونچے درجے کے سیلاب سے مظفر گڑھ شہر کے مشرقی حصہ کی طرف سے پانی شہر میں داخل ہونے کا خطرہ ہے۔ دوسری جانب مظفر گڑھ شہر خالی ہونے کی وجہ سے یہاں پرقائم کیے ریلیف کمیپوں میں رہنے والے افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور امدادی سرگرمیاں بھی اسی وجہ سے متاثر ہورہی ہیں۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق سیلاب سے صوبہ پنجاب میں اسّی لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقوں میں سیلاب نے لوگوں کے پینے کے پانی کے نظام کو بھی تباہ کر دیا ہے اور متاثرین میں بھوک کے ساتھ ساتھ پیاس ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آ رہی ہے۔سیلابی علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس پیٹ کے امراض میں مبتلا مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

خیبر پختونخواہ

متاثرین میں بھوک کے ساتھ ساتھ پیاس ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آ رہی ہے۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں مون سون بارشوں اور سیلاب کو آئے ہوئے دو ہفتے گزرگئے ہیں لیکن اس کے باوجود متاثر ہونے والے اکثر اضلاع ت  ہے جس کی وجہ سے لاکھوں متاثرین کے مشکلات میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق خیبر پختونخواہ میں آٹھ لاکھ پچاسی ہزار افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا جبکہ مزید چھ لاکھ ساٹھ ہزار افراد ایسے ہیں جن تک تاحال رسائی نہیں ہو سکی ہے۔
مالاکنڈ ڈویژن کے تین اضلاع سوات، دیر بالا اور دیر پایاں میں دریائے پنجکوڑہ اور دریائے سوات پر قائم تمام اہم پل سیلابی پانی میں بہہ جانے سے تاحال ان علاقوں تک زمینی راستوں سے آمد و رفت معطل ہے۔
بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں پنجاب میں اسّی لاکھ، خیبر پختونخوا میں سینتالیس لاکھ پچیس ہزار، سندھ میں دس لاکھ، بلوچستان میں پونے دو لاکھ،گلگت بلتستان میں پونے آٹھ ہزار جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں چوبیس ہزار افراد متاثر ہوئے ہیں۔
اوچا
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمٹ اتھارٹی کے ایک سنئیر اہلکار عدنان خان نے بی بی سی کو بتایا کہ بدہ کو موسم صاف ہونے کے بعد ضلع شانگلہ میں لاکھوں متاثرین کے لیے جانوروں کے ذریعے خوراک اور دیگر اشیاء پہنچانے کاکام شروع کر دیاگیا ہے۔
اہلکار کے مطابق دیر اور چترال کے لیے بھی زمینی راستے بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں جہاں لاکھوں کی آبادی کے لیے خوراک اور خیموں کی اشد ضرورت ہے۔انہوں نے بتایا کہ بحرین سے کالام تک سڑک کی بحالی کا کام شروع کیا گیا ہے جس کی مرمت پر مزید چار دن لگ سکتے ہیں۔
اہلکار کا کہنا تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں متاثرین کے لیے سرکاری عمارتوں میں چوبیس؛بنوں میں بیس جبکہ لکی مروت میں چار عارضی کیمپ بنائے گئے ہیں اور اب تک چار ہزار خاندانوں کو خوراک پہنچائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی لاکھوں کی تعداد میں سیلاب سے متاثرہ لوگ موجود ہیں لیکن ان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ ہر ایک متاثرہ خاندان کو خوراک پہنچا سکیں۔

بلوچستان

بلوچستان میں سبی اور کوہلو کے اضلاع کے تین ہزار خاندانوں کو امداد کی اشد ضرورت ہے جو بارشوں کے سیلابی ریلوں سے بے گھر ہوئے ہیں۔ ضلع جعفر آباد کی تحصیل صحبت پور میں سیلابی پانی کے باعث نہروں میں شگاف پڑنے سے صحبت پور کے تاریخی قلعے میں آباد ہزاروں افراد کی زندگی کوخطرہ ہے۔
صوبہ بلوچستان سے ملحقہ سندھ کے سرحدی علاقوں سے سیلاب کے متاثرین نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کرکے بلوچستان میں داخل ہونا شروع کردیا ہے۔ یہ متاثرین بلوچستان کے نصیر آباد اور جعفر آباد میں کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ سندھ کے ان متاثرین کا کہنا ہے کہ ابھی تک کسی نے بھی ان کی امداد نہیں کی ہے جبکہ حکومت بلوچستان کاموقف ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے سیلاب متاثرین کی بلاامتیاز مدد کی جارہی ہے۔