Thursday, August 12, 2010

سندھ: مزید سیلابی ریلے، نو شہروں کو خطرہ

 
اقوامِ متحدہ نے پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے متاثر افراد کی امداد کے لیے پینتالیس کروڑ نوے لاکھ ڈالر کی عالمی اپیل جاری کر دی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے امدادی اداروں کے رابطہ کار دفتر’اوچا‘ کے سربراہ جان ہومز نے نیویارک میں بدھ کو اس اپیل کا اعلان کیا۔
اپیل کا اعلان کرتے ہوئے اوچا کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کی بدترین بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں چودہ ملین افراد متاثر ہوئے ہیں اور یہ حالیہ برسوں میں کسی بھی ملک کو درپیش بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس امداد سے فوری ضرورت کی اشیاء کی فراہمی کو نوے روز تک یقینی بنایا جائے گا جن میں کھانا، پینے کا صاف پانی، خیمے اور ادوایات شامل ہوں گی۔
جان ہومز کا کہنا تھا کہ جیسے مذید معلومات ملیں گی ہنگامی امداد کے اس منصوبے پر تیس روز کے بعد نظر ثانی کی جائے گی۔
دوسری جانب پاکستان کے محکمہ موسمیات نے دریائے سندھ میں سیلاب کی تازہ صورتحال جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ دریائے سندھ پر واقع کوٹری بیراج سے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب انتہائی انچے درجے کا سیلاب ریلا گزرے گا۔
محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری کردہ تازہ اعداو شمار کے مطابق سیلابی ریلے کی وجہ سے ضلع حیدر آباد اورضلع ٹھٹہ کے نشیبی اور مضافاتی علاقوں میں سیلاب کا خطرہ ہے۔
خیال رہے کہ کوٹری بیراج دریائے سندھ پر واقع آخری بیراج ہے۔




دریں اثنا صوبہ سندھ میں حکومت نے سیلاب سے متاثرہ پندرہ اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں سیلاب متاثرین کے لیے تقریباً نو کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کے قریب غیر ملکی امداد ملی ہے۔


پاکستان میں اقوامِ متحدہ کے امدادی اداروں کے رابطہ افسر فواد حسین نے بی بی سی اردو کو بتایا ہے کہ ’پاکستان ہیومنیٹیرین ریسپانس پلان‘ کے نام سے جاری کی جانے والی اس اپیل کا مقصد دنیا کی توجہ پاکستان کے سیلاب پر مرکوز کروانا ہے۔
’اوچا‘ کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے ایک کروڑ چالیس لاکھ کے لگ بھگ افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں سے ساٹھ لاکھ بچّے ہیں۔ اوچا کا یہ بھی کہنا ہے متاثرین میں سے ساٹھ لاکھ کو خوراک کی اشد ضرورت ہے۔ جینیوا میں ادارے کی ترجمان الزبیتھ بائرز نے کہا ہے کہ ’اس وقت ہماری پوری توجہ ساٹھ لاکھ متاثرین کو خوراک مہیا کرنے پر ہے جن کو مدد کی اشد ضرورت ہے‘۔
دوسری جانب پاکستان کے صوبہ سندھ میں حکومت نے سیلاب سے متاثرہ پندرہ اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے صوبے کے بائیس میں سے جن پندرہ اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے وہ دریائے سندھ کے دو اطراف میں آباد ہیں۔ ان اضلاع میں گھوٹکی، خیرپور، سکھر، خیرپور، نوشہرو فیروز، بینظیر آباد، مٹیاری، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، ٹھٹہ، کشمور، جیکب آباد، شکارپور، لاڑکانہ، دادو اور جامشورو شامل ہیں۔
وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ سیلاب سے بڑی پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، متاثرین کی مدد کے لیے خیمے اور کھانے پینے کا سامان متعلقہ ضلعی انتظامیہ کے حوالے کردیا گیا ہے۔انہوں نے عالی اداروں سے اپیل کی کہ وہ لوگوں کی مدد اور بحالی کے لیے آگے آئیں۔

پاکستان کو امداد

پاکستان میں سیلاب متاثرین کے لیے تقریباً نو کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کے قریب غیر ملکی امداد ملی ہے۔نو اگست تک ملنے والی اس غیر ملکی امداد میں ایک کروڑ ڈالر کا قرضہ بھی شامل ہے۔
وزیراعظم سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ ایک کروڑ ڈالر مالیت کے کھانے کے ساڑھے چار لاکھ پیکٹ سیلاب متاثرین میں تقسیم کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ اقوام متحدہ اور برطانیہ کی جانب سے ایک ایک کروڑ ڈالر، آسٹریلیا نے نو اعشاریہ صفر آٹھ، کویت نے پچاس لاکھ ڈالر، جب کہ یورپی یونین نے بھی ایک کروڑ ڈالر مالیت کی امداد دی ہے لیکن اس امداد کی نوعیت کا تعین کیا جا رہا ہے۔
برطانیہ کی بین الاقوامی ترقی کے ادارے ڈی ایف آئی ڈی نے صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائی علاقوں میں پلوں کی تعمیر کے لیے ایک کروڑ ڈالر کی امداد دی ہے۔
اس کے علاوہ چین، ناروے، جنوبی کوریا، ایران، قطر اور چین وغیرہ نے مخلتف مالیت کی امدادی اشیا فراہم کی ہیں۔ اسلامی ترقیاتی بینک نے دس لاکھ ڈالر کی امداد اور ایک کروڑ ڈالر کا قرضہ فراہم کیا ہے۔ چوراسی اعشاریہ آٹھ ایک ملین ڈالر کی امداد میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کا حصہ بائیس اعشاریہ پانچ نو اور مخلتف ممالک سے امدادی سامان اور رقوم کی مالیت باسٹھ اعشاریہ بائیس ملین ڈالر ہے۔
دوسری جانب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان اعظم طارق نے برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا حکومت پاکستان اور خیبر پختونخوا سے درخواست کی کہ غیر ملکی امداد قبول نہ کریں۔ ’یہ امداد متاثرین کے لیے حاصل نہیں کی جا رہی بلکہ اپنی دولت میں اضافے کے لیے۔‘

سات سو امریکی فوجی امدادی سرگرمیوں میں مصروف

پاکستان میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے کہا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے والے پاکستان نے سات سو امریکی میرینز کو ویزے جاری کیے ہیں۔
پاکستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ یہ امریکی فوجی شینوک ہیلی کاپٹروں کے ذریعے متاثرہ علاقوں سے لوگوں کو نکال رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ امریکی سیلاب متاثرین کی امداد جاری رکھے گا۔

سیلاب اور متاثرین کی صورتحال

سندھ

سندھ کے چودہ اضلاع میں دس لاکھ سے زائد افراد براہ راست سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں
پاکستان میں اس وقت سیلاب کا بڑا ریلا دریائے سندھ میں موجود ہے اور حکام کے مطابق ریلا کوٹری بیراج کی جانب بڑھ رہا ہے۔
سندھ میں سیلابی ریلے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ خیرپور، نوشہرو فیروز، حیدرآباد اور دادو اضلاع کے حفاظتی بندوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
سندھ میں سیلاب سے اب تک سب سے زیادہ متاثرہ کشمور اور جیک آباد ہوئے ہیں۔ جیکب آباد کی تحصیل ٹھل کی پوری آبادی خالی ہو گئی ہے اور متاثرین جیکب آباد بلوچستان ہائی وے پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ متاثرین کی ایک بڑی تعداد سکھر پہنچ گئی ہے۔
حیدر آباد میں نامہ نگار علی حسن کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت سکھر بیراج پر گیارہ لاکھ تیس ہزار کیوسک کے قریب پانی ہے۔
سکھر کے ضلعی ریونیو افسر سید سمیر نے بتایا کہ شہر میں ہزاروں متاثرین کی آمد کے بعد چالیس سکولوں اور ایک کھلے میدان میں امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ سکھر شہر اور دریا کے درمیان حفاظتی بند سے رساؤ جاری ہے جس کو فوج کی مدد سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
منگل کو صوبائی وزرا نے حکام سے کہا تھا کہ وہ کچے سے لوگوں کے جلد از جلد انخلا کو یقینی بنائیں ورنہ بہت تاخیر ہو جائے گی۔ نامہ نگار کے مطابق کچے کے علاقے سے لوگوں کا انخلا ممکن نہیں ہو سکا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد وہاں موجود ہے۔
منگل کو انعام اللہ دھاریجو نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نقصان کا صحیح اندازہ اسی وقت ہوگا جب سیلابی ریلا یہاں سے گزر جائے گا لیکن میں محدود اندازے سے بتا سکتا ہوں کہ کچے کا علاقہ مکمل ڈوب گیا ہے‘۔
دریا کے دائیں کنارے پر بند ٹوٹنے سے غوث پور، کندھ کوٹ، کشمور اور شکار پور سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے اور ایک ہی رات میں چالیس ہزار افراد نے ضلع سکھر کے مختلف مقامات پر پناہ لی ہے۔
انعام اللہ دھاریجو
ان کا کہنا تھا کہ سیلاب سے سکھر میں آٹھ سے دس دیہات کی پینتیس سے چالیس ہزار کی آبادی براہِ راست متاثر ہوئی ہے۔ ڈی سی او نے بتایا کہ دریا کے دائیں کنارے پر بند ٹوٹنے سے غوث پور، کندھ کوٹ، کشمور اور شکار پور سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے اور ایک ہی رات میں چالیس ہزار افراد نے ضلع سکھر کے مختلف مقامات پر پناہ لی ہے۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے جیکب آباد، کشمور، شکارپور، قمبر، شہداد کوٹ کے علاقوں کو ریڈ الرٹ علاقے قرار دیا گیا ہے۔اس سے پہلے حکام کے مطابق صوبہ سندھ میں گڈو بیراج سے بحیرۂ عرب تک بیس لاکھ تک کی آبادی کے سیلاب سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

پنجاب

مظفر گڑھ کے نواحی دیہات سے فوج نے نقل مکانی میں آبادی کی مدد کی
صوبہ پنجاب کے فلڈ ریلیف کے ڈائریکٹر جنرل رضوان بیگ کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب کا شہر مظفر گڑھ خطرے کی زد میں ہے کیونکہ تونسہ اور چشمہ کے مقامات پر پانی کی سطح مسلسل بڑھی ہے ۔
ان کے بقول دریائے سندھ سے پانی کا جو بڑا ریلا منگل اور بدھ کی درمیانی شب مظفر گڑھ سے گزرا ہے اس سے مظفر گڑھ محفوظ رہا ہے تاہم ارگرد کی بستیوں کو یہ پانی زیر آب کرگیا ہے۔
مظفر گڑھ شہر کو پہلے ہی سیلاب کے خطرے کے پیش نظر خالی کرا لیا تھا اور ستر فیصد آبادی شہر کو چھوڑ چکی ہے۔مظفر گڑہ سے رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے ایک نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ تین لاکھ افراد شہر سے نقل مکانی کرچکے ہیں جس کے باعث شہر ویران پڑا ہے۔
دوسری طرف مقامی صحافی تحسین ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ مظفر گڑھ اور ملتان کے درمیان سڑک بھی بند کردی گئی ہے جس سے لوگوں کو نقل مکانی کرنے میں شدید مشکل کا سامنا ہے کیونکہ پہلے ہی ڈیڑہ غازی خان اور مظفر گڑہ کے درمیان منقطع ہوچکا ہے جو ابھی تک بحال نہیں ہوا۔
مقامی صحافی نے یہ بھی بتایا کہ دریائے چناب میں جو اونچے درجے کا سیلاب ہے اس سے مظفر گڑھ شہر کو مشرقی حصہ کی طرف سے پانی شہر میں داخل ہونے کا خطرہ ہے ۔
دوسری جانب مظفر گڑھ شہر خالی ہونے کی وجہ سے یہاں پرقائم کیے ریلیف کمیپوں میں رہنے والے افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور امدادی سرگرمیاں بھی اسی وجہ سے متاثر ہورہی ہیں۔
محکمہ موسمیات پنجاب کے میٹ آفیسر حضرت میر نے بی بی سی کو بتایاکہ تریموں کے مقام پر اس وقت اونچے درجے کا سیلاب ہے جس کی سطح آئندہ چند گھنٹوں میں کم ہو جائے گی۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق سیلاب سے صوبہ پنجاب میں اسّی لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقوں میں سیلاب نے لوگوں کے پینے کے پانی کے نظام کو بھی تباہ کر دیا ہے اور متاثرین میں بھوک کے ساتھ ساتھ پیاس ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آ رہی ہے۔سیلابی علاقوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس پیٹ کے امراض میں مبتلا مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

خیبر پختونخواہ

متاثرین میں بھوک کے ساتھ ساتھ پیاس ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آ رہی ہے۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں مون سون بارشوں اور سیلاب کو آئے ہوئے دو ہفتے گزرگئے ہیں لیکن اس کے باوجود متاثر ہونے والے اکثر اضلاع تک  ہے جس کی وجہ سے لاکھوں متاثرین کے مشکلات میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق خیبر پختونخواہ میں آٹھ لاکھ پچاسی ہزار افراد کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا جبکہ مزید چھ لاکھ ساٹھ ہزار افراد ایسے ہیں جن تک تاحال رسائی نہیں ہو سکی ہے۔


مالاکنڈ ڈویژن کے تین اضلاع سوات، دیر بالا اور دیر پایاں میں دریائے پنجکوڑہ اور دریائے سوات پر قائم تمام اہم پل سیلابی پانی میں بہہ جانے سے تاحال ان علاقوں تک زمینی راستوں سے آمد و رفت معطل ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ زمینی راستے بند ہونے کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں مختلف قسم کے مسائل پیدا ہورہے ہیں جن میں خوراک اور ادوایات کی قلت اور پینے کے صاف کی فراہمی سرفہرست ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس وقت ان اضلاع میں تقریباً دس لاکھ افراد سے زمینی راستوں سے رسائی نہیں ہورہی جبکہ ان علاقوں تک بذیعہ ہیلی کاپٹر سروس غذائی اشیا پہنچائی جارہی ہے۔

بلوچستان

بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں پنجاب میں اسّی لاکھ، خیبر پختونخوا میں سینتالیس لاکھ پچیس ہزار، سندھ میں دس لاکھ، بلوچستان میں پونے دو لاکھ،گلگت بلتستان میں پونے آٹھ ہزار جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں چوبیس ہزار افراد متاثر ہوئے ہیں۔
اوچا
بلوچستان میں سبی اور کوہلو کے اضلاع کے تین ہزار خاندانوں کو امداد کی اشد ضرورت ہے جو بارشوں کے سیلابی ریلوں سے بے گھر ہوئے ہیں۔ ضلع جعفر آباد کی تحصیل صحبت پور میں سیلابی پانی کے باعث نہروں میں شگاف پڑنے سے صحبت پور کے تاریخی قلعے میں آباد ہزاروں افراد کی زندگی کوخطرہ ہے۔
صوبہ بلوچستان سے ملحقہ سندھ کے سرحدی علاقوں سے سیلاب کے متاثرین نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کرکے بلوچستان میں داخل ہونا شروع کردیا ہے۔ یہ متاثرین بلوچستان کے نصیر آباد اور جعفر آباد میں کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ سندھ کے ان متاثرین کا کہنا ہے کہ ابھی تک کسی نے بھی ان کی امداد نہیں کی ہے جبکہ حکومت بلوچستان کاموقف ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے سیلاب متاثرین کی بلاامتیاز مدد کی جارہی ہے۔