اقوام متحدہ کے انسانی امور کے ادارے’اوچا‘ کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے حالات آئے روز بدترین ہوتے جا رہے ہیں اور متاثرہ افراد کی تعداد ایک کروڑ چالیس لاکھ کے قریب ہوگئی ہے
امدادی اپیل جاری کرنے کا اعلان اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے نیویارک نے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم فوری ضروریات پوری کرنے کے لیے جلد ہی کروڑوں ڈالر امداد کی اپیل کریں گے۔ میں امداد دینے والوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیں‘۔
پاکستان میں آٹھ دہائیوں کے دوران آنے والے اس بدترین سیلاب سے اب تک پندرہ سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس وقت سیلاب کا بڑا ریلا سندھ میں موجود ہے اور سکھر کے ڈی سی او کے مطابق اس ریجن میں ’ہائی فلڈ‘ ہے۔ سندھ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ دریائے سندھ میں کوٹری کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کے باعث ضلع حیدر آباد میں ہائی الرٹ ہے۔
ہمارے نامہ نگار اعجاز مہر سے بات کرتے ہوئے ’اوچا‘ کے ترجمان مریسیو جولیانو نے بتایا ہے کہ پاکستان میں سیلاب نے دنیا کا بہت بڑا بحران پیدا کیا ہے اور یہ بحران، ہیٹی اور جنوبی ایشیا میں آنے والے زلزلوں اور سونامی سے بھی بہت بڑا بحران ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عالمی برادری کا ابھی تک امداد کے بارے میں ’ریسپانس‘ کافی اطمینان بخش ہے اور دس کروڑ ڈالر تک کی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لیکن ’ہمیں چند سو ملین ڈالر مزید درکار ہوں گے کیونکہ تباہی بڑے پیمانے پر ہوئی ہے‘۔
سیلاب سے اب تک سندھ کے چودہ اضلاع میں دس لاکھ سے زائد افراد براہ راست متاثر ہوئے ہیں اور اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکام کے مطابق صوبہ سندھ میں گڈو بیراج سے بحیرۂ عرب تک بیس لاکھ تک کی آبادی کے سیلاب سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
سندھ
سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ سیلاب سے اب تک صوبے کے چودہ اضلاع میں دس لاکھ سے زائد افراد براہ راست متاثر ہوئے ہیں اور اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکام کے مطابق صوبہ سندھ میں گڈو بیراج سے بحیرۂ عرب تک بیس لاکھ تک کی آبادی کے سیلاب سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔صوبائی ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ صالح فاروقی نے بی بی سی کو بتایا کہ دریا میں دو شگاف پڑنے کے بعد متاثرین کی تعداد ان کے ابتدائی اندازوں سے بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ’ کچے کے علاقے کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہر بھی متاثر ہوئے ہیں جیسے غوث پور کا شہر خالی کروایا گیا، جیکب آباد کے شہر ٹھل سے بھی انخلا ہورہا ہے، اس کے علاوہ کشمور، گھوٹکی اور خیرپور سے بھی لوگ متاثر ہو رہے ہیں‘۔
صوبہ سندھ کے وزیراعلٰی قائم علی شاہ نے پاکستانی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ گڈو اور سکھر بیراج کے درمیانی علاقے سے سات لاکھ افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا ہے اور ان افراد کے لیے صوبے میں بیالیس امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ابھی تک مکمل توجہ سکھر بیراج کو بچانے پر تھی تاہم اب جبکہ بڑی نہروں میں پانی چھوڑے جانے کی وجہ سے سیلابی پانی میں چالیس ہزار کیوسک کی کمی ہوئی ہے، تو متاثرین کی امداد اور بحالی کے کام پر توجہ مرکوز کی جائے گی‘۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے دس ارب روپے کا فنڈ قائم کیا جا رہا ہے۔
سکھر کے ڈسی سی او انعام اللہ دھاریجو کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب سکھر بیراج سے گیارہ سے ساڑھے گیارہ لاکھ کیوسک پانی گزرا ہے۔
سکھر بیراج کو بچانے کے لیے پیر اور منگل کی درمیانی شب اس سے نکلنے والی نصیر واہ اور نارا کینال سمیت چار نہروں میں گنجائش سے زیادہ پانی چھوڑا گیا۔ خیال رہے کہ سکھر بیراج سے نو لاکھ کیوسک پانی گزرنے کی گنجائش ہے۔
ابھی تک مکمل توجہ سکھر بیراج کو بچانے پر تھی تاہم اب جبکہ بڑی نہروں میں پانی چھوڑے جانے کی وجہ سے سیلابی پانی میں چالیس ہزار کیوسک کی کمی ہوئی ہے، تو متاثرین کی امداد اور بحالی کے کام پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
قائم علی شاہ، وزیراعلٰی سندھ
ڈی سی او کا کہنا تھا کہ سکھر میں سات سے آٹھ ہزار افراد سیلاب سے متاثر ہوئے جنہیں نجی اداروں کی مدد سے کھانے پینے کا سامان فراہم کیا جا رہا ہے۔ تاہم نامہ نگار جعفر رضوی کے مطابق سندھ میں کندھ کوٹ سے قادرپور تک سیلاب کی وجہ سے ہزاروں افراد اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ گھر بار چھوڑ کر بلند مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں اور یہ تمام افراد تاحال امداد کے منتظر ہیں۔
ادھر محکمۂ موسمیات کی طرف سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اگلے چوبیس گھنٹوں کے دوران دریائے سندھ میں کوٹری کےمقام پر چھ سے آٹھ لاکھ کیوسک پانی گزرے گا۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ دریائے سندھ میں اس مقام پر بہت اونچے اور انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔
نامہ نگار علی حسن کے مطابق کوٹری بیراج کے اطراف اور حیدرآباد شہر کو سیلاب سے بچانے والے حفاظتی بندوں کو مضبوط بنانے کا کام مسلسل جاری ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ سیلاب کا بڑا ریلا گیارہ اور بارہ اگست کی درمیانی شب یہاں سے گزرے گا۔ خیال رہے کہ کوٹری بیراج کی گنجائش پونے نو لاکھ کیوسک ہے۔
پنجاب
خیال رہے کہ پیر کی صبح حکام کی جانب سے مظفرگڑھ میں سیلاب کے خطرے کے پیشِ نظر یہ منادی کروا دی گئی تھی کہ لوگ فوری طور پر محفوظ مقامات پر پہنچ جائیں۔ اس اعلان پر شہر کی قریباً چار لاکھ آبادی اور دیگر علاقوں سے وہاں پناہ لینے والے ہزاروں متاثرین میں اس اطلاع پر سراسیمگی پھیل گئی اور لوگ افراتفری میں ملتان کی طرف روانہ ہوئے تھے۔
ریلیف کمشنر کے مطابق ملتان میں سولہ کے قریب سرکاری عمارتوں کو خالی کروا کر وہاں ریلیف کمیپ قائم کر دیے گئے ہیں جبکہ ملتان میں ہی ایک گودام بھی بنایا گیا ہے جہاں پر خوراک اور امدادی سامان کو محفوظ کیا جائے گا۔
نامہ نگار عبادالحق کے مطابق ریلیف کمشنر کا کہنا ہے کہ پیر اور منگل کی درمیانی شب تریموں کے مقام سے پونے تین لاکھ کیوسک پانی گزرا ہے اور اب پانی کی مقدار میں کمی واقع ہونا شروع ہو گئی ہے جس سے جھنگ، چنیوٹ اور ملتان کے نشیبی علاقوں کے زیرِ آب آنے کا خطرہ کم ہو گیا ہے۔
ہم نے پہلے ہی وفاقی حکومت سے دس ارب روپے کی مالی امداد مانگی تھی لیکن سیلاب سے ہوئے نقصانات کا اندازہ لگاتے ہوئے ہم نے اب پچیس ارب روپے کی مالی امداد مانگی ہے۔
شہباز شریف، وزیراعلٰی پنجاب
اخلاق تارڑ نے بتایا کہ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے درمیان جو زمینی رابطہ منقطع ہوا ہے اسے بحال کیا جائے کیونکہ ان علاقوں تک امدادی سامان نہیں پہنچ پا رہا۔
ریلیف کمشنر کا کہنا ہے کہ زمینی راستہ منقطع ہونے کی وجہ سے پچیس سے تیس امدادی ٹرک راستے میں رکے ہوئے ہیں اور بقول ان کے جونہی یہ راستہ بحال ہوگا متاثرہ علاقوں میں چھوٹی گاڑیوں کے ذریعے امدادی سامان پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے درمیان زمینی راستے بند ہونے کی وجہ سے امدادی سامان دیگر متاثرہ علاقوں کی طرف بھیج دیا گیا ہے جبکہ راجن پور کے لیے دو سی ون تھرٹی طیاروں کے ذریعے خوراک اور امدادی سامان پہنایا گیا ہے
پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے صوبے میں سیلاب متاثرین کے لیے دس ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ اس بارے میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نقصانات کا سروے پانی کے اترنے کے فوراً بعد شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا ’ہم نے پہلے ہی وفاقی حکومت سے دس ارب روپے کی مالی امداد مانگی تھی لیکن سیلاب سے ہوئے نقصانات کا اندازہ لگاتے ہوئے ہم نے اب پچیس ارب روپے کی مالی امداد مانگی ہے۔‘
خیبر پختونخوا
صوبہ خیبر پختونخوا کے متاثرہ اضلاع میں بارشوں اور سیلابی ریلوں کے نئے سلسلے نے ان علاقوں کو ایک بار مرتبہ پھر اپنی لیپٹ میں لے لیا ہے۔ جب کہ ضلع چارسدہ میں چند دیہات ایسے ہیں جہاں تازہ بارشوں نے پہلے سے متاثرہ افراد کے مُشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
خیبر پختونخواہ میں شاہراہ قراقرم مٹی کے تودے گرنے کی وجہ سے بائیس مقامات پر بند ہے۔ کالام، کوہستان، چترال، گلگت بلتستان اور دیر کے علاقے منقطع ہیں۔ ان علاقوں کے لیے ہیلی کاپٹر کی سروس بھی موسم کی خرابی کی وجہ سے بند ہے۔ مالاکنڈ میں چکدرہ پر پل تاحال نہیں بن سکا۔ چارسدہ اور نوشہرہ میں مقیم متاثرین کے لیے حکومت کا پیغام ہے کہ وہ امداد کے حصول کے لیے اپنے نزدیکی سکولوں اور سرکاری عمارتوں میں جائیں تاکہ ان کی شکایات دور کی جا سکیں۔
چارسدہ میں پینسٹھ فیصد تیار فصلیں تباہ ہوئی ہیں جس کی وجہ سے پندرہ ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مکئی کی اسّی فیصد فصلیں اور چاول کی نوے فیصد تباہ ہوئی ہیں۔ نوشہرہ میں فصلیں تباہ ہونے کے باعث تقریباً تین ارب اور پشاور میں ساڑھے تین ارب سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے شمال مشرق جنوب اور مغرب میں تمام علاقے سیلابی ریلوں سے متاثر ہوئے جس وجہ سے صرف بھکر جانے کا راستہ ٹریفک کے لیے کھلا رہا باقی پانچ راستے ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند رہے۔ اس وقت ڈیرہ ژوب روڈ کے علاوہ باقی راستے کھول دیے گئے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ برائے زراعت نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں کہا ہے کہ سیلاب سے صوبے کی زراعت کو پینتیس ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اے پی پی کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں چارسدہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ چارسدہ میں پینسٹھ فیصد تیار فصلیں تباہ ہوئی ہیں جس کی وجہ سے پندرہ ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مکئی کی اسّی فیصد فصلیں اور چاول کی نوے فیصد تباہ ہوئی ہیں۔
نوشہرہ میں فصلیں تباہ ہونے کے باعث تقریباً تین ارب اور پشاور میں ساڑھے تین ارب سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔
بلوچستان
علاقے سے تعلق رکھنے والی بلوچستان اسمبلی کی خاتون رکن محترمہ غزالہ گولہ نے کا کہنا ہے کہ علاقے میں موجود قبائل اپنے آپ کو بچانے کے لیے پانی کارخ دوسرے قبائل کی طرف موڑنے کی کوشش کررہے ہیں جس سے علاقے میں تصادم کابھی خطرہ ہے۔
گلگت بلتستان
گلگت بلتستان میں پولیس نے کہا کہ پیر کو ملبے کے نیچے سے مزید دو لاشیں نکالی گئی ہیں۔ اس طرح بارشوں کی وجہ سے طغیانی اور تودے گرنے کے نتیجے میں ہلاک والوں کی تعداد بیالیس ہوگئی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کوئی ایک درجن افراد اب بھی لاپتہ ہیں اور ان کی تلاش کے لئے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر
ادھر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے قائم ادارے سٹیٹ ڈیزاسڑ منیجمنٹ اتھارٹی یعنی ایس ڈی ایم اے کے اعلیٰ عہدیدار شاہد ملک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ سیلاب میں ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار افراد پر مشتمل آٹھ ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بیشتر خاندان اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور علاقے کے لوگوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ چار سو سے زیادہ خاندان حکومت کی طرف سے سرکاری سکولوں میں قائم کیمپوں میں رہتے ہیں جب کہ بعض متاثرین کو خیمے فراہم کیے گئے ہیں۔
پاکستان کے زیرے انتظام کشمیر میں حالیہ سیلاب میں ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار افراد پر مشتمل آٹھ ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں۔
شاہد ملک
ایس ڈی ایم اے کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ سیلاب اور تودے گرنے کے باعث اب تک کی اطلاعات کے مطابق کم از کم باسٹھ افراد ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ ستر سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ نقصان اس سے زیادہ ہوسکتا ہے کیونکہ ان علاقوں سے اطلاعات حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں جن کا ملک کے دوسرے حصوں سے رابطہ کٹا ہوا ہے