سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اعلان کیا ہے کہ سکیورٹی کی وجوہات پر وہ بلیک بیری کی چند سروسز پر پابندی عائد کر رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے کہا ہے کہ وہ اکتوبر سے بلیک بیری سے ای میل بھیجنے، انٹرنیٹ تک رسائی اور ایک بلیک بیری سے دوسرے بلیک بیری کو فوری پعغامات بھیجنے پر پابندی عائد کر رہا ہے۔دوسری جانب سعودی عرب نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ بھی ایک بلیک بیری سے دوسرے بلیک بیری کو فوری پیغامات پر پابندی عائد کر رہا ہے۔
دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ اس پابندی کی وجہ یہ ہے کہ وہ بلیک بیری سے ان سروسز کی نگرانی نہیں کر سکتے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بلیک بیری کے سرور ان ممالک میں موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے بلیک بیری ہینڈ سیٹ تمام ڈیٹا براہ راست بیرون ملک بھیج دیتے ہیں جہاں کمپنی کے سرور قائم ہیں۔ اس وجہ سے بلیک بیری سے بھیجے جانے والے پیغامات کی نگرانی نہیں ہوپاتی۔
متحدہ عرب امارات کا کہنا ہے کہ یہ پابندی گیارہ اکتوبر سے عائد کی جائے گی جبکہ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ یہ پابندی اگست کے آخر تک عائد کردے گا۔
سعودی ٹیلی کام کے بورڈ کے ممبر عبدالرحمان ماذی کا کہنا ہے کہ اس پابندی کا مقصد بلیک بیری کے مالکان پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ جب بھی معلومات مانگی جائیں فراہم کرے۔
اس وقت سعودی عرب میں چار لاکھ اور متحدہ عرب امارات میں پانچ لاکھ افراد بلیک بیری استعمال کر رہے ہیں۔
یو اے ای میں ٹیلی مواصلات کے نگراں ادارے کے حکام کا کہنا ہےکہ پابندی کا فیصلہ حتمی ہے لیکن بلیک بیری کی سروسز فراہم کرنے والی کمپنی سے بات چیت جاری ہے۔ان کا دعوی ہے کہ اس پابندی کا سنسرشپ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور پابندی کی وجہ صرف یہ ہے کہ کمپنی یو اے ای کے قوانین پر عمل نہیں کر رہی۔
اس سے پہلے یہ الزامات سامنے آئے تھے کہ نگراں ادارے نے بلیک بیری ہینڈ سیٹس پر مبینہ طور پر جاسوسی کرنے والا سافٹ وئر نصب کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ سن دو ہزار سات میں بلیک بیری کی مالک کمپنی رسرچ ان موشن (آر ای ایم) نے یو اے ای کو وہ کوڈ فرام کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے استعمال سے ای میل اور ایس ایم ایس پیغامات پڑھے جاسکتے ہیں۔
ہندوستان نے بھی بلیک بیری کے استعمال پر اپنے خدشات ظاہر کیے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ بلیک بیری کا سرور ہندوستان میں نہ ہونے کی وجہ سے شدت پسند اپنے منصوبوں کو پوشیدہ رکھنے کے لیے اس سروس کا استعمال کر سکتے ہیں۔