Friday, August 13, 2010

’ڈرون حملوں کا قانونی جواز کوئی نہیں‘

جنیوا میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں پروفیسر فلپ آلسٹن نے ہدف بنا کر یا نشانہ بنا کر بالخصوص ڈرون حملے اور ان سے ہوئی ہلاکتوں میں بیشتر کو ماورائے عدالت اور غیر قانونی ہلاکتیں قرار دیا ہے۔
فلپ آلسٹن اقوام متحدہ کے اجلاس میں اپنی وہ رپورٹ پیش کر رہے تھے جو انہوں نے ایک برس کی تحقیق کے بعد تیار کی۔
اس رپورٹ میں امریکی ڈرون حملوں میں شدت اور پاکستان اور افغانستان میں ان حملوں سے بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے تناظر میں فلپ آلسٹن کا کہنا تھا کہ ایسے نئے قوانین کی ضرورت ہے جو ان ڈرون حملوں کی منطق اور حد طے کر سکیں۔
اس رپورٹ کے تناظر میں فلپ آلسٹن کی بی بی سی اردو سروس کے ساتھ گفتگو میں ان سے پوچھا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا اتحادی ہے اور اگر امریکہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کر رہا ہے تو یہ حملے غیر قانونی کس طرح ہو سکتے ہیں۔ فلپ آلسٹن کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔
’جہاں تک تھیوری کا تعلق ہے تو اگر میرا ملک شدید جارحیت کا شکار ہے تو میں اپنی مدد کے لیے کسی دوسرے ملک کو بلا سکتا ہوں۔ لیکن اس کے باوجود اس دوست ملک کو یہ اختیار حاصل نہیں ہو جاتا کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرے۔ لہٰذا اگر ایسی صورت حال بھی موجود ہے جس میں کسی دوسرے ملک کی مداخلت کو بلکل جائز قرار دیا جا سکے تب بھی لڑائی سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی ہر اعتبار سے پاسداری کی جانی چاہیے۔‘
پروفیسر فلپ آلسٹن سے جب پوچھا گیا کہ ہاٹ پرسوٹ کے قانون کے تحت بھی تو امریکہ ان لوگوں پر حملہ کر سکتا ہے جو اس پر حملہ کر رہے ہیں اور اگر حملہ آور پاکستان میں پناہ لے لیتا ہے تو امریکہ اس پر حملہ کیوں نہ کرے۔ جواب میں پروفیسر فلپ آلسٹن کا کہنا تھا کہ ہاٹ پرسوٹ یا سرحدوں کی پرواہ کیے بغیر دشمن کا تعاقب کرنے کا معاملہ مختلف ہے۔ یہ نظریہ دشمن سے زمین پر یا گہرے سمندر میں کسی جھڑپ یا لڑائی کے بعد عمل میں آتا ہے۔
اگر میرا ملک شدید جارحیت کا شکار ہے تو میں اپنی مدد کے لیے کسی دوسرے ملک کو بلا سکتا ہوں۔ لیکن اس کے باوجود اس دوست ملک کو یہ اختیار حاصل نہیں ہو جاتا کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرے
پروفیسر فلپ آلسٹن
امریکہ یہاں جو تھیوری استعمال کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ اسے مسلح حملے کی صورت میں اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ یہ حملہ گیارہ ستمبر کو ہوا اور ممکنہ طور پر اس میں دہشت گردی کی دوسری کارروائیاں بھی شامل ہیں اور ان مسلح حملوں کی وجہ سے امریکہ کو جوابی کارروائی کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن بین الاقوامی قوانین کے مطابق جوابی کارروائی کا وقت کے لحاظ سے اور تناسب کے حساب سے بھی اصل حملے سے بہت قریبی تعلق ہونا چاہیے۔
لہٰذا زیادہ تر قانونی ماہرین یہی کہیں گے کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے نو برس بعد یہ تعلق اتنا مضبوط نہیں کہ دنیا میں کہیں بھی اس قانون کے تحت کارروائی کا جواز فراہم کیا جا سکے۔ ’میں نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سامنے یہی بات رکھی تھی کہ اگر ہم یہ دلیل مان لیتے ہیں تو اقوام متحدہ کے چارٹر میں طاقت کے استعمال پر جو پابندی ہے اس کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا۔‘
لیکن پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو پاکستان اس بات کی تردید کرتا ہے کہ اس معاملے میں امریکہ کے ساتھ اس کی کوئی خاموش مفاہمت ہے۔ تو اس صورت میں پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کی قانونی حیثیت کا تعین کیسے ہو۔ اس پر پروفیسر فلپ آلسٹن کا کہنا ہے کہ امریکہ نے واضح طور پر یہ نہیں کہا ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت کی اجازت سے ایسا کر رہا ہے۔ امریکی حکومت نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سامنے باضابطہ طور پر اس بات سے انکار کیا ہے لیکن امریکہ پھر بھی کہتا ہے کہ اسے اجازت حاصل ہے۔
’میں یہ بات ان اعلیٰ سرکاری عہدیداران کے بیانات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جو میں نے ذرائع ابلاغ میں دیکھے ہیں۔ لیکن یہ امریکی حکومت کے سرکاری موقف کے بالکل خلاف ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ کوئی اجازت نہیں ہے اور اسے پاکستانی سرزمین پر کی جانے والی کارروائی پر افسوس ہے۔ اگر اجازت حاصل ہونے کی بات کی جاتی تو پھر امریکہ یہ کہہ سکتا ہے کہ جنگ ہو رہی ہے اور پاکستان نے اسے اپنی مدد کے لیے بلایا ہے لہذا وہ جنگجوؤں یا متعلقہ عام شہریوں کے خلاف مناسب کارروائی کر سکتا ہے۔‘
فلپ آلسٹن بعض موقعوں پر ان حملوں کو قانونی اور جائز اور بعض موقعوں پر غیر قانونی قرار دیتے ہیں تو کن حالات میں انہیں غیر قانونی اور کن حالات میں ان ہی حملوں کو قانونی طور پر جائز قرار دیا جائے۔ اس پر ان کا کہنا ہے کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ قانونی اعتبار سے کسی ڈرون سے داغا جانے والا میزائل کسی ہیلی کاپٹر یا طیارے یا کسی ایک فوجی کی جانب سے داغے جانے والے میزائل سے مختلف نہیں ہے۔ کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ تو ڈرون سے میزائل اسی صورت میں داغے جا سکتے ہیں جب ہتھیاروں سے لڑائی ہو رہی ہو اور یہ میزائل صرف مسلح گروپوں کے جنگجوؤں کے خلاف یا ان عام شہریوں کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں جو لڑائی میں براہ راست حصہ لے رہے ہوں۔ یہ لوگوں کا ایک محدود گروپ ہی ہو سکتا ہے۔ صرف یہی وہ حالات ہیں جن میں کسی کو مارنے کے لیے ڈرون استعمال کیے جا سکتے ہیں۔‘