
انہوں نے کہا کہ خاتون کے خاوند اور دوسرے رشتہ دار دو تین دنوں سے دریاؤں کے کناروں پر لاپتہ بچوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ تاہم ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ لا پتہ افراد پانی میں بہہ چکے ہیں یا جان بچا کر کسی اور طرف نکل گئے ہیں۔
آج جب میں اس کمیپ پہنچا تو خاتون بدستور بے ہوشی کے عالم میں پڑی ہوئی تھیں۔ بعد میں کیمپ انتظامیہ نے انھیں ایدھی ایمبولنس کے ذریعے سے قریبی ہسپتال منتقل کیا جہاں انھیں داخل کر دیا گیا ہے۔
خاتون کی ایک اور بیٹی زینب اور ایک چھوٹا بیٹا بھی اس کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ سات سالہ زینب نے بتایا کہ وہ کل آٹھ بہن بھائی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب جب آیا تو ان کے چار بھائی اور دو بہنیں ہمارے گھر چھوڑنے سے قبل ہی وہاں سے نکل گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کے بھائی بہن سیلاب میں بہہ گئے ہیں یا کسی اور طرف چلے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے گاؤں میں پانی اتنی تیزی سے اوپر چڑھا کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ ہونے والے بہن بھائیوں میں ایک بھائی ان سے چھوٹا ہے۔

خاتون کے ایک بھائی کے بقول ’میرے اپنے بچے تین دن سے لاپتہ تھے اور وہ سب آج صبح زندہ سلامت ملے ہیں۔ وہاں گاؤں میں کسی کو دوسروں کی نہیں بلکہ اپنی فکر لاحق تھی‘۔
جبہ گاؤں پشاور شہر سے تقریباً چار پانچ کلومیٹر دور کے فاصلے پر دریا کے کنارے واقع ہے۔
کمیپ میں مقیم اکبر پورہ گاؤں کے ایک باشندے محمد رحمان نے بتایا کہ ان کے گاؤں کے پچاس سے ساٹھ کے قریب افراد لاپتہ ہوئے تھے جن میں ابھی تک صرف دس افراد زندہ حالت میں ملے ہیں جبکہ دیگر افراد بدستور لا پتہ ہیں۔
اس کی ایک بیٹی اور ایک چھوٹا بچہ بچ گئے ہیں لیکن اسے ان کا ہوش ہی نہیں ادھر قدرتی آفات سے نمٹنے کےلیے قائم ادارہ پی ڈی ایم اے نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں تصدیق کی گئی ہے کہ پشاور اور آس پاس کے اضلاع میں سو کے قریب افراد بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے بدستور لاپتہ ہیں۔